Sunday, 19 May 2013

تم جو پل کو ٹھہر جاؤ تو یہ لمحے بھی

تم جو پل کو ٹھہر جاؤ تو یہ لمحے بھی 
آنے والے لمحوں کی امانت بن جائیں
تم جو ٹھہر جاؤ تو یہ رات ، مہتاب
یہ سبزہ ، یہ گلاب اور ہم دونوں کے خواب
سب کے سب ایسے مباہم ہوں کہ حقیقت ہو جائیں
تم ٹھہر جاؤ کہ عنوان کی تفسیر ہو تم
تم سے تلخیء اوقات کا موسم بدلے
رات تو کیا بدلے گی ، حالات تو کیا بدلیں گے
تم جو ٹھہر جاؤ تو میری ذات کا موسم بدلے
مہربان ہو کے نہ ٹھہرو تو پھر یوں ٹھہرو
... جیسے پل بھر کو کوئی خوابِ تمنّا ٹھہرے
جیسے درویشِ مادہ نوش کے پیالے میں کبھی
اِک دو پل کے لیئے تلخیء دنیا ٹھہرے
ٹھہر جاؤ کے مدارات میخانے سے
چلتے چلتے کوئی اِک آدھ سبو ہو جائے
اس سے پہلے کہ کوئی لمحہء آئندہ کا تیر
اس طرح آئے کہ پیوستِ گُلو ہو جائے
تم جو پل کو ٹھہر جاؤ تو ۔۔

فیض

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...