Wednesday 22 May 2013

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا



کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ھے کچھ نے کہا چہرا تیرا

ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب نے پوچھا کیے
ہم ہنس دیئے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا

اس شہر میں کس سےملیں ہم سےتو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا

تو با وفا، تو مہرباں، ہم اور تجھ سے بد گماں؟
ہم نے تو پوچھا تھا ذرا، یہ وصف کیوں ٹھہرا تیرا

کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ھی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا

ہم پر یہ سختی کی نظر؟ ہم ھیں فقیر رو ہگزر
رستہ کبھی روکا تیرا، دامن کبھی تھاما تیرا

ہاں ہاں تیری صورت حسیں لیکن تو ایسا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا تیرا

بے درد سننی ھو تو چل کہتا ھے کیا اچھی غزل
عاشق تیرا، رسوا تیرا، شاعر تیرا، انشاء تیرا

ابنِ انشاء

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...