Monday, 20 May 2013

کل تک جو کر رہے تھے بڑے حوصلے کی بات

کل تک جو کر رہے تھے بڑے حوصلے کی بات
ہے ان کے لب پہ آج کٹھن مرحلے کی بات
جس کارواں کے سامنے تارے نِگوں رہے
صحرا میں اُڑ گئی ہے اُسی قافلے کی بات
آخر سرِ غرور نے سجدہ کیا اسے
یوں مختصر ہوئی ہے بڑے فاصلے کی بات
راہِ طلب میں ہم سے کوئی بھول ہو گئی
... کیوں کر رہے ہیں آپ ہمارے صِلے کی بات
ہم نے تو عرض کر ہی دیا حرفِ مدعا
اب آپ ہی کریں گے کسی فیصلے کی بات
اُن کی تلاش اصل میں اپنی تلاش ہے
کس سلسلے سے جا ملی کس سلسلے کی بات
واصف علی واصف

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...