" حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر (رح) فرماتے ہیں کہ ایک درویش زمین پر پڑا یہ کہہ رہا تھا کہ درویشی اس بات کا نام ہے کہ جو کچھ اسے دن کو ملے رات کو ایک پیسہ بھی نہ بچائے اور رات کو ملے تو دن کے لئے کچھ نہ رکھے سب کا سب راہِ خُدا میں صرف کردے درویشی اس بات کا نام نہیں کہ لنگوٹا باندھے یا چمڑا پہنے اور ایک لقمے کی خاطر دَربدر مارا مارا پھرے اور اپنے جیسوں کے آگے ہاتھ پھیلاتا پھرے۔۔۔ بلکہ درویشی اس بات کا نام ہے کہ سَر سجدے سے نہ اٹھایا جائے اور کپڑے نہایت عُمدہ (پاکیزہ) پہنے جائیں اور جو کچھ ملے اس کا نہایت لذیذ کھانا پکا کر درویشوں کو کھلایا جائے اور بچا کر کچھ نہ رکھے بلکہ جو کچھ ملے سب راہِ خدا میں خرچ کردے ایک مرتبہ خواجہ بایزید بسطامی (رح) سے پوچھا گیا کہ درویشی کیا ہے۔۔۔؟
فرمایا اٹھارہ ہزار عالم میں جو سونا چاندی ہے اسے (درویش) کو ملے تو سب راہِ دوست میں صَرف کردے۔۔۔۔۔۔۔
پھر فرمایا کہ دَرویشی کے ستر ہزار مقام ہیں جب تک دَرویش ان مقامات کو طے نہیں کرلیتا اسے دَرویش نہیں کہا جاسکتا۔۔۔۔۔ اس واسطے کہ ان مقامات میں ستر ہزار عالَم ہیں جب تک انسان ان تمام عوالم سے واقف نہیں ہوتا ان مقامات کو طے نہیں کرلیتا اسے دَرویش نہیں کہہ سکتے بعض صِرف شکم پرستی کیلئے دَرویشی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"
فرمایا اٹھارہ ہزار عالم میں جو سونا چاندی ہے اسے (درویش) کو ملے تو سب راہِ دوست میں صَرف کردے۔۔۔۔۔۔۔
پھر فرمایا کہ دَرویشی کے ستر ہزار مقام ہیں جب تک دَرویش ان مقامات کو طے نہیں کرلیتا اسے دَرویش نہیں کہا جاسکتا۔۔۔۔۔ اس واسطے کہ ان مقامات میں ستر ہزار عالَم ہیں جب تک انسان ان تمام عوالم سے واقف نہیں ہوتا ان مقامات کو طے نہیں کرلیتا اسے دَرویش نہیں کہہ سکتے بعض صِرف شکم پرستی کیلئے دَرویشی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"
No comments:
Post a Comment