Sunday, 19 May 2013

اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں


اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں

تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں
...

تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں

ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں

ہم اگر منزلیں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستہ ہو جائیں

دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں، یا ہوا ہو جائیں

عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں، کیمیا ہو جائیں

اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں

بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فراز
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں

احمد فراز

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...