Saturday 18 May 2013

ھم نے سوچ رکھا ہے



ھم نے سوچ رکھا ہے
چاہے دل کی ہر خواہش 
زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے بہ جائے 
چاہے اب مکینوں پر گھر کی ساری دیواریں 
چھت سمیت گر جایں 
... اور بے مقدر ھم 
اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جایں 
تم سے کچھ نہیں کہنا 

کیسی نیند تھی اپنی کیسے خواب تھے اپنے 
اور اب گلابوں پر 
نیند والی آنکھوں پر 
نرم خو سے خوابوں پر 

کیوں عذاب ٹوٹے ہیں 
تم سے کچھ نہیں کہنا 

گھر گئے ہیں راتوں میں 
بے لباس باتوں میں 
اس طرح کی راتوں میں 
کب چراغ جلتے ھیں کب عذاب ٹلتے ہیں 
اب تو ان عذابوں سے بچ کےبھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں
جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں
ھم نے سوچ رکھا ہےتم سے کچھ نہیں کہنا

(نوشی گیلانی)

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...