Sunday, 19 May 2013

مجھے خبر تھی مرے بعد وہ بکھر جاتا




مجھے خبر تھی مرے بعد وہ بکھر جاتا

سو اسکو کس کے بھروسے پہ چھوڑ کر جاتا

وہ خوشبوؤں میں گھرا تھا کہ مثل سایۂ ابر
میان صحن چمن میں ادھر اّدھر جاتا

وہ کوئی نشہ نہیں تھا کہ ٹوٹتا مجھ میں
وہ سانحہ بھی نہیں تھا کہ جو گزر جاتا

وہ خواب جیسا کوئی تھا نگار خانۂ حسن
... میں جتنا دیکھتا وہ اتناہی سنور جاتا

بس ایک خیال کی لو میں دھلا ہوا وہ بدن
میں جتنا سوچتا وہ اتنا ہی نکھر جاتا

رکا ہوا تھا میرا سانس میرے سینے میں
اسے گلے نہ لگاتا تو گھٹ کے مر جاتا

اک ایسے عالمِ وارفتگی سے گزرا ہوں
جہاں سمیٹتا خود کو تو میں بکھر جاتا

شکستہ ہو گيا پندار آئینہ ورنہ
یقین کر میں تیرے عشق سے مکر جاتا

نہ جانے کتنے محاذوں پہ جنگ تھی میری
بس ایک وعدہ نبھانے میں میں اپنے گھر جاتا



No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...