Saturday 18 May 2013

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا


مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بے تاب
کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا
...
جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا
جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کے نکلا

دل کی آبادی کی اس حد ھے خرابی کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ھے کہ اس راہ سے لشکر نکلا

اشک تر قطرہ خوں لخت جگر پارہ دل
ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہتر نکلا

ہم نے جانا تھا لکھے گا کوئی حرف اے میر
پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...