Saturday 18 May 2013

کوچہ عشق سے کچھ خواب اٹھا کر لے آئے


کوچہ عشق سے کچھ خواب اٹھا کر لے آئے
تھے گدا تحفہ نایاب اٹھا کر لے آئے

کون سی کشتی میں بیٹھیں تیرے بندے مولا
اب جو دنیا کوئی سیلاب اٹھا کر لے آئے
...
ہائے وہ لوگ گیے چاند سے ملنے اور پھر
اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خواب اٹھا کر لے آئے

ایسا ضدی تھا میرے عشق کہ نہ بہلا پھر بھی
لوگ سچ مچ کئی مہتاب اٹھا کر لے آئے

سطح ساحل نہ رہی جب کوئی قیمت ان کی
ہم خزانوں کو تہہ آب اٹھا کر لے آئے

جب ملا حسن بھی ہرجائی تو اس بزم سے ہم
عشق آوارہ کو بیتاب اٹھا کر لے آئے

اس کو کم ظرفیِ رندان گرامی کہیے
نشے چھوڑ اے مئے ناب اٹھا لے آئے

انجمن سازی ارباب ہنر کیا کہیے
ان کو وہ اور انہیں احباب اٹھا کر لے آئے

ہم وہ شاعر ہمیں لکھنے لگے لوگ تو ہم
گفتگو نے نئے آداب اٹھا کر لے آئے

خواب میں لذت یک خواب ہے دنیا میری
اور میرے فلسفی اسباب اٹھا کر لے آئے

عبید اللہ علیم

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...