Sunday 19 May 2013

گر یہی تلخی یہی تکرار بڑھتی جائے گی


گر یہی تلخی یہی تکرار بڑھتی جائے گی
تیرے میرے درمیان دیوار بڑھتی جائے گی

اس طرف رہ جائے گا تو اور ادھر میں بیچ میں
اک سڑک پر بھیڑ کی رفتار بڑھتی جائے گی
...
جیسے جیسے ترس آتا جائے گا خود پر ہمیں
ویسے ویسے لذت آزار بڑھتی جائے گی

میرے گونگے حرف کا پتھر ترے کام آئے گا
اور بھی تیغ زباں کی دھار بڑھتی جائے گی

جتنے اپنے زخم دنیا کو دکھاتے جاؤ گے
دل میں اتنی خواہش غمخوار بڑھتی جائے گی

مت محبت مانگ اس سے قرض خواہوں کی طرح
اور اس کی شدت انکار بڑھتی جائے گی،!!




No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...