Sunday 19 May 2013

آنکھوں میں انتظار کے بادل ٹھہر گئے

آنکھوں میں انتظار کے بادل ٹھہر گئے
ہم ضبط میں کمال کی حد سے گذر گئے

انجام اب کی بار بھی چوکھٹ پہ ثبت تھا
جانا نہیں تھا در پہ ترے، ہم مگر گئے

ہم کو خبر تھی ڈوب کے بچنا محال ہے
کس واسطے خوشی سے بھنور میں اتر گئے

پہلے بھی کرچیاں ہی لگی تھیں ہمارے ہاتھ
 کیوں خواب سر زمین پہ بارِ دگر گئے

کچھ تتلیوں پہ رہ گئے لکھے ہوئے 
کتنے ہی خواب پلکوں پہ آ کر بکھر گئے

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...