Sunday 19 May 2013

ھم نے سوچ رکھا ہے

ھم نے سوچ رکھا ہے
چاہے دل کی ھر خواھش
زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے بہہ جائے
گھر کی ساری دیواریں چھت سمیت گر جائیں
اوربے مقدر ہم
اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جائیں

تم سے کچھ نہیں کہنا

کیسی نیند تھی اپنی کیسے خواب تھے اپنے
... اور اب گلابوں پر
نیند والی آنکھوں پر
نرم خو سے خوابوں پر
کیوں عذاب ٹوٹے ہیں

تم سے کچھ نہیں کہنا

گِھر گئے ہیں راتوں میں
بے لباس باتوں میں
اس طرح کی راتوں میں
کب چراغ جلتے ہیں کب عذاب ٹلتے ہیں
اب تو ان عذابوں سےبچ کے بھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں
جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں
ہم نے سوچ رکھا ہے

تم سے کچھ نہیں کہنا

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...