Thursday 18 July 2013

آج تھوڑا سا غم سنا ڈالا
میں نے بت کا بھی سر ہلا ڈالا

رات آنکھوں سے کیوں شکایت کی

شدتِ درد نے رُلا ڈالا

خاک ہوتے ، دھواں نہیں ہوتے
اُس نے محفل سے کیوں اٹھا ڈالا

تھا نہ میرے وجود کا قصّہ
میرے دامن میں آ کے لا ڈالا

بھول جانے کا سلسلہ تم نے
یاد رکھا یا پھر بھلا ڈالا

داستاں بن کے آ گیا لب تک
جیبِ دل میں جو حرف تھا ڈالا

جان کھاتا تھا تیرے ملنے کو
آخر اس دل کو غم نے کھا ڈالا

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...