Sunday 23 December 2012

دل دکھانے کی انتہا کر دی
آزمانے کی انتہا کر دی

تیر تحفے میں بھیج کر دل کو
ظلم ڈھانے کی انتہا کر دی

چونک کر نام پوچھنے والے
بھول جانے کی انتہا کر دی

جیت نے مات اوڑھ لی گویا
سر جھکانے کی انتہا کر دی

دل کو ناسور کر لیا آخر
گھاؤ کھانے کی انتہا کر دی

پھر پلٹ کر کبھی نہیں دیکھا
اس کو پا نے کی انتہا کر دی

تا فلک ہو گیا دھواں سا بتول
راکھ اڑانے کی انتہا کر دی

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...