یہ جو قربتوں کا خمار ہے
مرے اجنبی، مرے آشنا
تو مصر کے آئینہ خانے میں
ترے خال و خد کے سوا مجھے
کہیں اور کچھ نہ دکھائی دے
یہ عذابِ طوق و رسن مرا
کسی قصر خواب و خیال تک
مرے ذہن کو نہ رسائی دے
مجھے راستہ نہ سجھائی دے
تو یہ چھت جو اپنے سروں پہ ہے
یہ جو بام و در کے حصار ہیں
یہ جو رت جگوں کی بہار ہے
یہ جو قربتوں کا خمار ہے
تو اسی پہ کیا شب عمر کی
سبھی راحتوں کا مدار ہے ؟
مرے اجنبی، مرے آشنا
کہ دھواں دھواں سی جو ہے فضا
یہ تھمی تھمی سی جو ہے ہوا
یہ جو شور ہے دل زار کا
کبھی اس پہ غور کیا ہے کیا ؟
مرے اجنبی، مرے آشنا
کبھی کاش تجھ سے میں کہہ سکوں
کہ یہ ساعتیں ہیں کٹھن بہت
مرے زخم جاں کے طبیب آ
مرے تن بدن سے بھی ربط رکھ
مری روح کے بھی قریب آ
مرے اجنبی، مرے آشنا
No comments:
Post a Comment