Showing posts with label ****Khawateen ki chilman***. Show all posts
Showing posts with label ****Khawateen ki chilman***. Show all posts

Wednesday, 7 August 2013

گرمی کی سخت پیاس میں ٹھنڈک کا دلبریں احساس

       گرمی کی سخت پیاس میں ٹھنڈک کا دلبریں احساس        


فصل ربیع کا تیسرا مہینہ مئی ہے چونکہ اس ماہ سے ہمارے ملک (پاکستان) میں خاصی گرمی شروع ہوجاتی ہے۔ موسم سرما کے اثرات مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں اس لیے ہوا میں نمی کم ہوکر حرارت تیز تر ہونے لگتی ہے جس کی بنا پر ہوا کا بھاری پن ختم ہوجاتا ہے اور ہوا گرم ہوکر بالائی فضاء میں چلی جاتی ہے اور اس خلا کو پر کرنے کیلئے ٹھنڈی ہوا آجاتی ہے۔ ہوا کے اس مسلسل چکر کے باعث ہوا کی کثافتیں کم ہوکر ہمیں صاف ہوا ملنے لگتی ہے۔
سورج اور دھوپ کی شدید حرارت کے باعث فضا گرم ہوجاتی ہے جس سے انسانی اجسام بھی متاثر ہوتے ہیں اور نہ صرف بدن کی بیرونی جلد کا ہی درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے بلکہ اندرونی طور پر بھی ایک آدھ فارن ہیٹ زیادہ ہوجاتا ہے۔ حرارت کے باعث رطوبات بدن کم ہوکر پیاس میں شدت آجاتی ہے اور چونکہ نمک رطوبتوں کو اکٹھا کرکے اخراج کا باعث بنتا ہے اس لیے اس موسم میں زیادہ نمکین چیزیں کھانے سےپرہیز واجب ہے۔
اسی طرح زیادہ حرارت کی وجہ سے معدہ کمزور ہوجاتا ہے اور سری‘ گائے کا گوشت وغیرہ انتہائی ثقیل غذاؤں کو خاطر خواہ ہضم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا‘ گائے اور بکری کا دودھ اس موسم میں بنسبت بھینس کے دودھ کے اجزاء ترکیبی اور تاثیر کے لحاظ سے زیادہ فائدہ مند سمجھا گیا ہے۔
جہاں تک ورزش کا تعلق ہے آپ جانتے ہیں حرکت سے حرارت پیدا ہوتی ہے اور جبکہ گرم موسم کے باعث پہلے ہی بدن متاثر ہورہا ہو تو اسے مزید متاثر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ مگر طلوع آفتاب سے قبل اگر معمولی قسم کی ورزش کر بھی لی جائے تو زیادہ نقصان دہ نہیں۔ ہمارے ملکی حالات کے اس موسم میں دن میں دو یا تین بار غسل کرنا بھی بیحد مفید ہے تاکہ پسینہ کی بدبو اور میل کچیل صاف ہوکر جلد کے مسامات کھل جائیں۔
اس ماہ میں صبح کی ابتداء چائے کی بجائے کسی ٹھنڈے مشروب سے کرنی چاہیے جیسے شربت صندل‘ شربت کیوڑہ‘ شربت بزوری یا بادام سے تیار شدہ سردائی وغیرہ۔ ناشتہ میں مچھلی‘ گوشت اور انڈوں کی بجائے دودھ‘ دہی‘ مکھن اور لسی زیادہ مفید ہے۔اسی طرح دوپہر اور رات کے کھانوں میں سبز پتوں والی سبزیاں اور دالیں زیادہ استعمال کریں۔ کھانے کےہمراہ انار دانہ‘ پودینہ یا دھنیا کی چٹنی‘ پیاز اور سلاد بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ سوڈا واٹر‘ چائے‘ کافی‘ قہوہ وغیرہ سے حتی الوسع پرہیز کریں تو آپ کی صحت کیلئےزیادہ بہتر ہوگا۔
دھوپ میں زیادہ دیر ٹھہرنے‘ کام کرنےیا سفر کرنے میں احتیاط رکھیں۔ ضرورت کے وقت سر پر چھجے دار تنوں کی بنی ہوئی ٹوپی استعمال کریں تاکہ سورج کی شعاعیں براہ راست ننگے سر یا گردن پر نہ پڑیں۔ ورنہ سردرد‘ بخار‘ نزلہ زکام‘ آشوب چشم‘ سوء مزاج حار اور گردن توڑ جیسی بیماری کا حملہ ہوسکتا ہے۔ باہر سے آکر فوراً بجلی کے پنکھے نیچےیا ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھنا مضرصحت ہے۔
اس ماہ میں لباس عام سوتی کپڑے کا پہنیں تاکہ بدن تک سورج کی شعاعیں پہنچنے میں مناسب رکاوٹ رہے۔ ویسے بھی اس قسم کے لباس میں آکر جسم ٹھنڈا رہتا ہے۔ بالکل باریک ململ یا وائل کے کپڑے نقصان دہ ہوتے ہیں اور ریشمی کپڑے پہننا تو اپنےجسم پر ظلم کرنا ہے۔
رات کھلی ہوا میں پلنگ پر مچھر دانی لگا کر سوئیں تاکہ مچھروں سے محفوظ رہ سکیں ورنہ ملیریا بخار کا خطرہ ہے۔ جن لوگوں کے پاس مچھر دانی نہ ہو بدن کے کھلے حصوں پر مچھر مار کریم یا سرسوں کے تیل کی مالش کرکے سوئیں۔
موسم گرما اور مشروبات
مشروبات کو موسم کی مطابقت کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے تو انسانی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں پسینہ کا زیادہ آنا انسانی جسم میں پانی کی کمی پیدا کرسکتا ہے۔ لہٰذا موسم گرما میں پانی کا زیادہ استعمال صحت کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ گرمیوں کے مشروبات میں مندرجہ ذیل خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔
1۔ جسم میں پانی کو قدرے دیر تک ٹھہرائے رکھے۔ 2۔ تیزابیت کو کم کرے۔ 3۔ پیشاب آور ہو کہ جسم میں جمع فالتو نمکیات کا اخراج ممکن ہوسکے۔ 4۔ ٹانک خصوصیات کا حامل ہو۔ 5۔ بلڈپریشر کم کرے۔6۔ پیاس کی قدرتی خواہش پر اثرانداز نہ ہو۔ 7۔ نمکیات کسی حد تک موجود ہوں۔ قدیم زمانہ سے اس خطہ میں چند ایک مشروبات بہت مشہور ہیں اور ان میں اوپر بیان کردہ خصوصیت موجود ہیں۔
1۔ پکی لسی۔ 2۔کچی لسی۔ 3۔شربت بزوری۔ 4۔شربت صندل۔ 5۔گنے کا رس۔ 6۔ لیموں کی سکنجبین۔ 7۔صندل پر مبنی دوسرے مشروبات (جو مقامی کمپنیاں بناتی ہیں۔)
8۔ سردائی (خشخاش‘ مغز کھیرہ‘ کالی مرچ‘ سونف)
9۔ کاہو‘ کدو‘ کاسنی کھیرہ کے بیج کی سردائی۔
جہاں تک پکی لسی اور کچی لسی کا تعلق اس کو اپنی پسند کے مطابق نمک یا چینی ملا کر استعمال کرتے ہیں۔ اپنی پیشاب آور خصوصیات کی وجہ سے مثانہ اور معدہ کی گرمی کو ختم کرتی ہیں۔ کیلشیم کی موجودگی بلڈپریشر کو نارمل رکھتی ہے۔ یہ خیال رہے کہ قدرتی اجزاء مبنی پیشاب آور مشروبات انسانی جسم کے اندر کے نمکیات کے توازن کو خراب نہیں کرتے جبکہ مصنوعی مرکبات اس توازن کو خراب کردیتے ہیں اور انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
شربت بزوری اور صندل قدرتی جڑی بوٹیوںکے جوشاندے سے تیار کیے گئے مشروبات ہیں اور اس کی افادیت سے تقریباً ہر شخص واقف ہے۔ یہ دونوں مشروبات ایک طرف بلڈپریشر کو کم کرتے ہیں پانی کو جسم کے اندر قدرے زیادہ دیر تک ٹھہرائے رکھتے ہیں‘ پیاس کی شدت کو کم کرتے ہیں پیشاب آور ہیں اور قدرتی پیاس کے رجحان کو متاثر نہیں کرتے۔ معدہ‘ مثانہ کی گرمی کو ختم کرتے ہیں جسم کے اندرونی درجہ حرارت کو نارمل رکھتے ہیں۔ دل کی دھڑکن کو نارمل رکھتے ہیں اور انسانی جسم کو لو لگنے سے بچاتے ہیں۔
چینی کی موجودگی انسانی جسم کو غذائیت مہیا کرتی ہے۔ گنے کے رس میں پوٹاشیم کی موجودگی اس کو قدرتی طور پرکم کرتی ہے اور جلد سے جلد جزوبدن بن جاتی ہے۔ پیاس کی شدت کو ختم کرتی ہے۔ قدرتی پیاس کے رجحان کو قائم رکھتی ہے۔ سردائی وغیرہ ان اجزاء پر مبنی ہوتی ہے جن میں سردو تر مزاج ہوتا ہے اور جسم کے درجہ حرارت کو زیادہ نہیں ہونے دیتی‘ پیشاب آور ہوتی ہیں‘ اعصاب اور عضلات کو سکون دیتی ہیں۔ خصوصیات کے لحاظ سے مسکن ہوتی ہے۔ بلڈپریشر کو کم کرتی ہے۔ دل کی دھڑکن کو تیز ہونے سے روکتی ہے۔نبض کو نارمل رکھتی ہے۔

ڈیپریشن سے نجات

 ڈیپریشن سے نجات

اگر آپ کو یوں محسوس ہونے لگے کہ آپ ایک ایسے بے قابو گھوڑے پر سوار ہیں جس کی نہ باگ آپ کے ہاتھ میں ہے اور نہ آپ کے پیر اس کی رکاب میں ہیں۔ نہ آپ کو اس کی رفتار پر قابو ہے اور نہ اس کی سمت کا پتا‘ اور پھر ایسا لگے گویا آپ زندگی کے تقاضے پورے کرنے کے اہل نہیں رہے تو سمجھ لیجئے کہ آپ دباؤ میں ہیں۔ مختلف لوگوں کے لیے دباؤ کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں اور دباؤ کے مختلف معنی ہوتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ پہلے ہمارا دفتر الگ تھا اور گھر الگ۔ آپ نے دفتر کاکام ختم کیا … دفتر بند ہوا تو دفتری مسائل وہیں چھوڑ کر آپ گھر آگئے۔ ماں باپ‘ بہن بھائی‘ بیوں بچوں سے باتیں‘ دوست احباب سے ملاقات‘ تفریح اور آرام۔ سکون کے ساتھ دوسرے دن پھر دفتر میں حاضری۔ اب وہ دور ہے کہ اکثر لوگوں کے لیے خصوصاً شہر کے باسیوں کیلئے دفتر اور گھر کی درمیانی حد ختم ہوگئی ہے۔ دفتر میں دیر تک کام کیا اور پھر گھر پہنچے تو بھلا ہو کمپیوٹر اور موبائل فون کا وہاں بھی دفتری کاموں نے پیچھا نہ چھوڑا۔
یوں تو دباؤ کی وجوہ ان گنت ہیں لیکن ماہرین کے نزدیک زیادہ قصور کام کی زیادتی‘ روزگار کے عدم استحکام اور زندگی کے بارے میں غیرحقیقی رویوں کا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ آپ ہر وقت مصروف ہیں۔ نتیجہ تھکن‘ چڑچڑے پن اور خرابی صحت کی شکل میں ظاہر ہورہا ہے۔ آپ کے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ آپ ٹھیک سے کھانا کھالیں‘ ورزش کرلیں اور چین سے سوسکیں۔ پھر بھلا صحت کیا خاک ٹھیک رہے گی۔
دباؤ کے اثرات بھی مختلف ہوتے ہیں‘ لیکن ایک عام اثر بے خوابی ہے اور یہ بے خوابی متعدد مسائل کی جڑ ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم تھک ہار کر رات کو بستر پر گرپڑتے ہیں جسم تھکا ہوا ہوتا ہے‘ لیکن دماغ اس وقت بھی کاروباری اور دفتری الجھنوں میں پھنسا ہوتا ہے۔ مشکل سے دو تین گھنٹے کی نیند نصیب ہوتی ہے اور صبح ہم تھکے جسم اور تھکے دماغ کے ساتھ دفتر پہنچتے ہیں جہاں کاغذوں کے ڈھیر اور فائلوں کے انبار ہمارا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔ بہت سے ملکوں میں لوگ اس دباؤ کا علاج شراب‘ کافی اور چائے وغیرہ سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کافی اور چائے کی ہمارے ہاں بھی کمی نہیں‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ دباؤ سے چھٹکارا پانے کا ایک منفی طریقہ ہے جو صحت کو مزید خطرے میں مبتلا کردیتا ہے اور رفتہ رفتہ مرض قلب‘ بلند فشار خون اور بہت سی دوسری بیماریاں لاحق ہونے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ مختصر یہ کہ دباؤ ہمارے جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور اور کھوکھلا کرنے لگتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جو لوگ دباؤ کا شکار ہوچکے ہیں اور یہ مسئلہ ان کیلئے روز بروز شدید ہوتا جارہا ہے انہیں اس منصوبے پر عمل کرنا چاہیے:
1۔ جن باتوں کو وہ اپنے دباؤ کا سبب سمجھتے ہیں انہیں ضبط تحریر میں لے آئیں اور ان کی فہرست بنالیں۔
2۔ اس فہرست کو غور سے دیکھیں اور ان اسباب کو علیحدہ لکھ لیں جن پر آپ قابو پاسکتے ہیں۔
3۔ پھر ان اسباب پر قابو پانے کی کوشش کیجئے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس طرح دباؤ کے اسباب کی فہرست نسبتاً مختصر ہوجائے گی اور آپ کیلئے ان پر ایک ایک کرکے قابو پانا آسان ہوجائے گا۔
دباؤ پر قابو پانے کے یوں تو مختلف طریقے ہیں‘ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ آپ ’’ نہیں‘‘ کہنا سیکھیں۔ یعنی ناجائز باتوں اور غلط تقاضوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالیں۔
دباؤ کو دور بھگانے کا ایک بڑا اچھا طریقہ ورزش ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ ہیلتھ کلب میں جاکر ورزشی آلات کا سہارا لیں۔ ایک سستا طریقہ چہل قدمی اور سائیکل سواری بھی ہے۔ شہر سےباہر خاموش فضا میں ایک گھنٹہ سائیکل چلائیے۔ دیکھیے کیسا مزہ آتا ہے اور صحت پر کیسا خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ شہر سے باہر نہ جاسکیں تو دریا یا نہر کے کنارے بھی یہ ورزش خوب رہے گی۔چہل قدمی اور سائیکلنگ سے مزاجی کیفیت پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے اور دفتر اور گھر کے جھگڑے خاصے کم ہوجاتے ہیں۔ اس ورزش کے دوران میں بہت سی باتوں پر غورو خوض کا موقع بھی مل جاتا ہے لیکن خبردار دفتری معاملات پر ہرگز غورنہ کیجئے گا۔
ہر ورزش اپنی اپنی جگہ فائدہ مند ہے۔ دماغ تازہ ہوتا ہے‘ دوران خون بہتر ہوتا ہے‘ جسمانی نظام کی اصلاح ہوتی ہے اور تناؤ کم ہوتا ہے۔ دباؤ سے پیدا ہونے والے فاضل ہارمون‘ ورزش سے ختم ہوتے ہیں اور دماغ میں ایسے کیمیائی مادے پیدا ہوتے ہیں جو دافع درد ہونے کی تاثیر رکھتے ہیں۔ ان کیمیائی اجزاء کا جسم اور دماغ دونوں کی کارکردگی پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔
ورزش سے وزن میں کمی اور توانائی میں اضافہ ہوتا ہے اور عام صحت بہتر ہوتی ہے۔ نتیجے میں زندگی کے بارے میں ہماری سوچ زیادہ مثبت ہوجاتی ہے۔ دباؤ اور اس سے متعلقہ مسائل کا مستقل حل ماہرین کے خیال میں یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو انسان سمجھیں‘ روبوٹ نہ سمجھیں۔ جی لگا کر کام کیجئے‘ لیکن آرام اور تفریح کیلئے بھی وقت نکالیے۔ دفتری کام کے دوران میں وقفہ بھی کیجئے اور کوشش کیجئے کہ یہ وقفہ دفتر سے باہر گزاریں جہاں موبائل فون آپ کے کان سے نہ چپکا رہے۔ آپ کے کاموں کی فہرست میں وہ کام سرفہرست رہیں جنہیں کرنا آپ کے بس میں ہے۔ جو کام آپ کے بس ہی میں نہ ہوں ان کےپیچھے نہ پڑیے۔ اپنی غذا کا خیال رکھیے اور الم غلم کھانے کے بجائے صحت بخش غذا کھائیے۔
ورزش کو اپنا معمول بنالیجئے۔ سماجی زندگی اور میل ملاقات کو اہمیت دیجئے۔ آخری اور اہم بات یہ ہے کہ زندگی کی رفتار کو ایسا رکھیے کہ یہ اچانک رک نہ جائے۔
یہی مثبت انداز ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے میں اسی طریقے کو اپنائیے تاکہ آپ کے جسم کا مدافعتی نظام 
ہر صورت حال سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہے۔

اب سبق یاد کرنا بہت آسان-

اب سبق یاد کرنا بہت آسان

انسان کو ایک سوشل انیمل کہا جاتا ہے کیونکہ اسے معاشرے میں رہنے کیلئے بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے اور زندگی گزارنے کیلئے معاشرے کی ضرورت پڑتی ہے کوئی بھی شخص اکیلا زندگی نہیں گزار سکتا۔ معاشرتی مطابقت اسی لیے اختیار کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور انسان کو اپنے اردگرد کے ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے اور اسی لیے وہ معاشرے میں رہنے کیلئے سیکھتا ہے۔ لہٰذا لرننگ یعنی آموزش ایک ایسا عمل ہے جو کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے اور تمام عمر چلتا رہتا ہے۔ آموزش کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں‘ انسان ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے مگربعض اوقات میں اس کا شعور ہوتا ہے اور بعض اوقات نہیں ہوتا۔ آموزش فارسی زبان کالفظ جو آموفتن سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے یاد کرنا اور اس کا تعلق میموری سےہے۔
سبق یاد کرنا ایک ایسا کام ہے جسے سنتے ہی کچھ بچے اُف … بے اختیار کہہ دیتے ہیں۔ اوہو …اف …یہ وہ الفاظ ہیں جو بچے اکتاہٹ سے بولتے ہیں …کہ ابھی تو ہوم ورک بھی کرنا ہے اور پھر سبق بھی یاد کرو …‘ آخر ہم کھیلیں گے کب…؟؟؟ صبح سکول جائیں‘ پھر ٹیوشن جائیں‘ پھر گھر آکر سبق یاد کریں۔ ہماری تو زندگی میں کوئی لطف ہی نہیں وغیرہ وغیرہ … اگر فرض کرلیاجائے کہ یہ باتیں نہیں ہیں تو پھر اردگرد کی ہر وقت کی نصیحت بچوں میں دلچسپی کو ختم کردیتی ہیں جیسے کہ انہیں ہر وقت کہنا کہ سبق یاد کرو‘ آپ کا فلاں کزن تو بہت لائق ہے تم بھی اس جیسے بنو… یہ باتیں ہر وقت یا ہر روز سننے سےبچے سبق پڑھنے سے پہلے ہی اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں اور سبق میں دلچسپی لینے کی بجائے اسے خانہ پوری سمجھنے لگتے ہیں۔
والدین اپنی جگہ درست ہوتے ہیں مگر بچے بھی اپنی جگہ درست ہوتے ہیں تو ایسے میں وقت کی ترتیب بہت ضروری ہوتی ہے۔ مگر آج کل ہر شخص اتنا مصروف ہے کہ ہر کسی کو اپنا کام مشکل اوربڑا اور دوسرے کا کام آسان اور چھوٹا لگتا ہے۔ والدین کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بچے کے ذہن میں کیا کیا باتیں چل رہی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کے دوست بنیں تاکہ بچے انہیں اپنی ہر بات بلاجھجک بتادیں اور بچوں کو یہ مت کہیں کہ ‘‘توبہ ہے تم تو ہروقت بولتے رہتے ہو‘‘ اس طرح بچے کی خوشی غم میں بدل جاتی ہے اور بچہ بھی بات کرنے سےسہم جاتا ہے۔ پھر اس کا یہ سہم جانا اس کی سوشل لائف‘ سکول لائف اور سٹڈی لائف کو بہت متاثر کرتا ہے۔
کسی دوسرے انسان کو ڈیل کرنا سب سے زیادہ ٹیکنیکل کام ہے اگرسمجھا جائے اور غور کیا جائے تو … کیونکہ ہر انسان حقائق کی جستجو میں ہوتا ہے اور آسانی سے دوسرے سے قائل نہیں ہوتا۔ اسی طرح جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ ہر شخص کو پرکھتے ہیں کہ یہ کس طبیعت کا مالک ہے اور اسے کتنی جلدی غصہ آتا ہے یا اس کے پاس کتناعلم ہے وغیرہ وغیرہ… ٹیچرز کو بھی طالب علموں کو ڈیل کرنا ہوتا ہے اور استاد کی شخصیت شاگرد پر بہت اثرانداز ہوتی ہے۔ بعض بچے اپنے استاد محترم سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ بالکل ہوبہو ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
آخر سبق کو یاد کرنا مشکل کیوں ہوتا ہے۔۔۔؟ اس کی کچھ وجوہات ہیں بعض بہت ہی معمولی ہیں مگر وہ بنیادی وجہ بن جاتی ہیں جیسے کہ:۔ اگر شاگرد کو اس بات کا علم نہ ہو کہ نصاب کتنا ہے اور یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب وہ باقاعدگی سےسکول نہ آئے۔2۔ سکول کالج میں دیر سے آنا‘ دیر سے آنے سے آپ لیکچر کا کچھ حصہ سمجھنے سے قاصر ہوجاتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ وہی سب سے اہم پوائنٹ ہو۔ 3۔ استاد صاحب کی طرف توجہ نہ دینا اور دوستوں کیساتھ باتوں میں مشغول رہنا۔ 4۔جو بات مشکل ہو اسے پوچھنے سے کترانا کہ میرے باقی ہم جماعت اور استادکیا گمان کریں گے۔ 5۔ لیکچر کے اہم نکات کو نوٹ کرنے کی بجائے کتاب کا صفحہ نمبر اور پیراگراف ہی ڈھونڈتے رہنا وغیرہ وغیرہ
یہ وہ تمام باتیں ہیں جو کہ سبق کو یاد نہ ہونے کی سب سے پہلی وجہ بنتی ہیں اور اس طرح سبق کی دلچسپی برقرار نہیں رہتی اور نتیجۃً بچے رٹا لگانے کو ترجیح دیتے ہیں دراصل طالبعلموں کو خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ وجہ ہے۔ وہ ان سب باتوں کو بہت معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ تمام کام وہ ہیں جو بچے کی پوری توجہ پڑھائی کی طرف راغب نہیں ہونے دیتے۔
ایک سادہ سی مثال ہے کہ ہم کوئی بھی کہانی دلچسپی سے پڑھیں یا کوئی ٹی وی پروگرام دیکھیں تو ہمیں وہ یاد رہتا ہے اور بچوں کو بھی وہ یاد رہتا ہے کیوں …؟؟؟ صرف ایک بار دیکھنے‘ پڑھنے اور سننے سے …؟؟؟ نہیں بلکہ اس کی وجہ ’’توجہ‘‘ ہے صرف توجہ …اگر ہم توجہ سے کہانی نہ پڑھیں تو وہ بھی ہمیں سمجھ نہیں آئے گی۔ لہٰذا کسی بھی کام کو کرنے کیلئے توجہ اور دلچسپی بہت ضروری ہے۔
اب یہ سوال ہوتا ہے کہ اگر ان تمام طریقوں پر عمل کرلیا جائے تو کیا پھر بھی اس کے علاوہ کوئی اور آسان طریقہ ہے … سبق یاد کرنے کا‘ جی ہاں بالکل ہے اور وہ یہ ہے:۔
1۔ سب سے پہلے دئیے ہوئے سبق کو دو سے تین مرتبہ پڑھیں اور یہ سمجھیں کہ کوئی دلچسپ بات آپ کو بتائی جارہی ہے۔2۔ اس سبق کی اہم باتیں نوٹ کرلیں۔ قلم سے کتاب پر ان اہم الفاظ کو خط کشیدہ کرلیں۔3۔ اب جو نکات سمجھ نہیں آتے انہیں دوبارہ پڑھیں اگر پھر بھی سمجھ نہ آئیں تو انہیں نوٹ کرلیں۔4۔ ہر پوائنٹ کی اہم بات جو کہ مرکزی بات ہو اسے ذہن نشین کرلیں۔ 5۔ سبق یاد کرنے کیلئے ایسوسی ایشن کا طریقہ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو تاریخ یاد نہ ہو تو وہ تاریخوں کو کسی واقعہ کے ساتھ منسلک کرکے یاد کرے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا سن وفات بھول جاتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اس طرح یاد کرے کہ پاکستان 1947ء میں بنا اور پاکستان کے بننے کے گیارہ سال قبل علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ وفات پاگئے تھے توپاکستان کے قیام سے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے سن وفات کے درمیان ایک تعلق بنا دیا اور اس طرح یہ آسانی سے یاد ہوجائے گا۔6۔اسی طرح جگہوں اور موقعوں کی مطابقت سے بھی سبق کو یاد کرسکتے ہیں۔ 7۔ لیکچر کی اہم باتوں کو ضرور نوٹ کرلیں اور سبق یاد کرنے سے پہلے وہ پڑھ لیں۔ 8۔ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اگر پوائنٹ یا کوئی لفظ بہت بڑا ہے تو اس کے اجزاء کرلیں اور ایک بامعنی لفظ بنا کر اسے یاد کرلیں جیسا کہ Wapda, News, PIA وغیرہ۔ 9۔ سبق یاد کرتے ہوئے کوئی بھی دوسری بات ذہن میں نہ لائیں اور توجہ اپنے سبق کی طرف دیں۔ 10۔ جب ایک سبق یاد ہوجائے تو پانچ منٹ کا وقفہ ضرور لیں اور پھر دوسرا سبق یاد کریں۔ 11۔ سبق کو یاد کرنے کے بعد ایک مرتبہ اس کی زبانی 

مشق ضرور کرلیں اور پھر خود چیک کریں کہ کیا غلطیاں ہیں اور کہاں کہاں مزید محنت درکار ہے۔

Sunday, 4 August 2013

بڑی بوڑھیوں کے آزمودہ گھریلو ٹوٹکے آپ کے لیے


       بڑی بوڑھیوں کے آزمودہ گھریلو ٹوٹکے آپ کے لیے        

دیواروں پر سے پنسلو ں کے نشانا ت (مر سلہ : روبینہ نا ز روبی، فیصل آبا د )
ننھے بچے بعض اوقات پنسلو ں سے دیواروں پر نشا نا ت لگا دیتے ہیں ان کو صاف کر نے کے لیے ٹھنڈے پانی میں کپڑا ڈبو کر اس پر سہا گہ چھڑک کر نشانات زدہ حصو ں پر رگڑنے سے دیواریں صاف ہو جا تی ہیں۔ 

مچھروں کو بھگانے کا طریقہ 
تلسی کے پتو ں کے رس کو اپنے جسم پر مل لینے سے مچھر بھا گ جا تے ہیں ۔ 



 انڈو ں کو دیر تک تا زہ رکھنا
کچھ خوا تین انڈوں کو نمک میں دبا دیتی ہیں ۔ اس طر ح وہ تازے رہتے ہیں ۔ پہلے زمانے میں خواتین انڈو ں کو ریت کے نیچے دبا دیتی تھیں اور اس ریت پر روزانہ پانی کا چھڑکا ﺅ کر تیں تھیں اس طر ح انڈے کا فی مدت تک غذائیت سے بھرپور رہتے تھے ۔

اگرزہریلا کیڑا کا ٹ لے
اگر کوئی زہریلا کیڑا جسم کے کسی حصے پر کا ٹ لے تو اس کا فوری علا ج یہ ہے کہ اس جگہ جہا ں کیڑے نے کا ٹا ہو ۔ لیموں کا رس ٹپکا دیں، فوری آرام آجائے گا۔

 نیل پالش ریموور
آپ نیل پالش ریمو ورگھر پر آسانی کے ساتھ تیار کر سکتی ہیں اور پیسے بھی بچا سکتی ہیں۔ ایک بوتل اصلی ” ایسی ٹون “ (Acetone ) کی کیمسٹ سے خرید لیں اور اس میں چار پانچ قطرے کسٹرائل ملا دیں ۔ پا لش ریمو ور تیار ہو جائے گی ۔

دیمک لگ جائے
جس جگہ دیمک لگ جائے وہاں مٹی کے تیل میںتار کو ل ملا کر لگا دیں دیمک فوراً بھاگ جائے گا۔ نیم کے خشک پتو ں کی دھونی دینے سے دیمک ختم ہو جاتاہے ۔

چائے کے دا غ
چائے کے داغ دور کرنے کے لیے سہاگہ ، گرم دودھ اور گلیسرین مفید ہیں ان میں سے کوئی بھی ایک چیز لگا کر داغ دور کرسکتے ہیں ۔

شیر خوا ر بچوں کے لیے مفید مشورے ( ایم ۔ شاہد لتھڑا ،تونسہ )
(1) بچے کے منہ پر کھا نسنے اور چھینکنے سے پرہیز کریں ۔


 (2) بچے کے منہ کا بو سہ لینے سے آپ خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی اس کی تا کید کر یں۔
(3) تیز روشنی سے بچے کی آنکھ کی حفا ظت کرنے میں کبھی غفلت نہ کیجئے۔
(4) بچے کو کتے، بلیوں یا گندے کھلو نو ں سے کبھی نہ کھیلنے دیجئے۔
(5) مکھیو ں اور مچھروں سے بچے کی حفا ظت کیجئے۔
(6) بچے کی پیٹھ کو سہا را دیے بغیر کبھی نہ اٹھائیے ۔
(7) بچے کو ہر روز پا خانہ کرنا چاہئیے ،اس کا خیال رکھیں ۔
(8) بچے کو گرم مو سم میں خاص طور پر پانی کی ضرورت ہو تی ہے۔ اس کو ہر گز نہ بھولیے ۔
(9) بچے کے جسم اور جو ڑوں پر پا ﺅ ڈر لگانے میں غفلت نہ کیجئے۔
(10) پیدا ہو نے کے بعد فوراً اور پھر روزانہ بچے کی آنکھیں صاف کر نا ہر گز نہ بھولیں ۔


بالو ں کے لیے آسان نسخہ ( مسز ظفر ، پنجند تلہ گنگ )
بیری کے پتے باریک کو ٹ کر انکے ساتھ سردھوئیں تو بھی بال مضبو ط ہو نگے ۔ تلو ں کے پتے آجکل آسانی سے مل سکتے ہیں۔ پانی میںڈ الیں تو بالکل شیمپو کی طر ح ہو جائینگے ۔بال خوبصورت اور چمکدار ہو جائیں گے ۔

سر کی خشکی کے لیے
کم خر چ نسخہ، جو آزمایا ہو ا ہے۔ لو کی کدو کا پانی 8 تولہ ۔ خالص تلو ں کا تیل 2 تولہ ۔ لوکی کدو کا پانی نکال کر تلو ں کا تیل شامل کردیں اور ہلکی آنچ پر جوش دیکر پانی جلا دیں ۔روغن صاف کر کے شیشی میں رکھ دیں ۔ بوقت ضرورت استعمال کریں اس سے نہ صرف خشکی دورہو گی بلکہ بال مضبو ط اور درا ز ہونگے اور گر تے ہوئے بال رک جائیں گے ۔

اخروٹ کی ٹافی
اخروٹ کی گری 50 گرام، دودھ آدھا لیڑ ، مکھن 1 چمچ ، کھو یا 100 گرام ، چینی 150 گرام ۔
بنانے کا طریقہ
اخروٹ باریک پیس لیں۔ دودھ اتنا ابالیں کہ آدھا رہ جائے پھر اس میں چینی اور اخروٹ ڈالیں اور چمچ ہلا تی رہیں۔ خوب ہلا ئیںگاڑھا ہو جائے تو اتار لیں۔ایک تھالی میں مکھن لگا کر الٹ دیں سطح ہموار کرکے ٹکڑے کاٹ لیں۔ تیا ر ہے ،مزے سے کھائیں ۔



source--ubqari

کیل مہاسوں سے نجات آسان



کیل مہاسوں سے نجات آسان 


کیل مہا سے بظاہر ایک معمولی سا مر ض ہے لیکن مریض کے لیے بہت سے پریشان کن نفسیا تی الجھا ﺅ کا باعث بنتا ہے ۔ نوجوانی کی پہلی سیڑھی چڑھتے ہی اکثر نو جوان خوا تین و حضرات کو یہ عارضہ لا حق ہو جا تاہے ۔ کیل مہا سے اکثر سولہ سے سترہ سال کی عمر میں شروع ہو تے ہیں ۔ یہ عموماً دونو ں گالو ں پر ہوتے ہیں ۔ صاف شفاف جلد ان کی وجہ سے بھاری لگتی ہے ۔ مریض بے بسی سے کبھی تو ان کو مختلف صابنوں سے دھو نے کی کوشش کر تا ہے یا ان پر مختلف پاﺅ ڈر اور کریمیں آزماتا ہے ۔ لیکن مرض بڑھتا ہی جا تاہے ۔ 
کیل مہا سو ں کو (ACNE ) کہتے ہیں جو یو نا نی زبان (AKME ) کا بگڑا ہوا تلفظ ہے ۔ اس کے لغوی معنی ہیں نقطے ۔ یہ مرض دنیا کے ہر خطے میں پایا جا تاہے ۔افریقہ میں کالی جلد والے لو گ اس سے محفوظ رہتے ہیں ۔ ایشیا ،یو رپ اورمشرقِ وسطیٰ کے لوگ اس سے متاثرہو تے ہیں۔ 

کیل مہا سے نکلنے کی وجو ہا ت کچھ اس طر ح ہیں ۔ انسانی جسم میں سنِ بلو غت تک پہنچتے وقت بہت سی تبدیلیا ں رونما ہوتی ہیں ۔ انسان کے وہ غدود جو بچپن میں زیا دہ سر گرم نہیں ہو تے جوانی کے شروع میں زیادہ فعال ہو جا تے ہیں جس کے نتیجے میں ان میں سے بہت سے ہا رمو نز نکل کر جسم میں اپنا عمل شروع کر دیتے ہیں ۔ انسان کی کھا ل کے اندر با لو ں کے ساتھ ساتھ چکنائی پیدا کرنے والے غدود ہوتے ہیں جن کو (SEBACIOUS GLANDS )کہا جا تاہے۔یہ گلینڈز(ANDROGEN ) ہارمونز کے زیر اثر فعال ہو جا تے ہیں ۔ ان غدودوں کا اصل مقصد چہرے کی جلد کو مناسب چکنا ئی بہم پہنچانا ہو تاہے ۔ یہ چکنائی مناسب مقدار میں جِلد کو حفا ظت مہیا کر تی ہے۔ لیکن ہا رمونز کے زیرِ اثر جب غدود زیا دہ فعا ل اور سر گرم ہو جاتے ہیں ۔ تو یہی چکنائی ضرورت سے زیا دہ پیدا ہونے لگتی ہے۔ زیا دہ چکنائی چہرے کے ان خلیو ں (CELLS) سے جو مر دہ ہو کر قدر تی طور پر جھڑتے رہتے ہیں ، مل کر چہرے پر تہہ سی جما دیتی ہے ۔ اس کے نتیجے مساما ت بند ہو جا تے ہیں اور کالے سے نقطے ظاہر ہونے لگتے ہیں ۔ ان کو زبان ِ عام میں کیل کہا جا تا ہے۔ 
 اکثر یہ خیال کیا جا تاہے کہ یہ سیا ہی مائل نقطے یا کیل گرد وغبار اور دھول کے جمنے سے بنتے ہیں لیکن ان کی اصل وجہ خلیوں کا آپس میں کیمیائی عمل ہو تاہے ۔ ایک اورصورتِ حال میں چکنائی اور خلیو ں کی تہہ جلد کے اوپر کے حصے تک نہیں پہنچ پا تی بلکہ اندرونی حصہ تک محدود ہو جا تی ہے ۔ اس صورت میں کیلوں اور مہا سو ں کی بجائے ہلکے ہلکے گلا بی دانے نمودار ہو جا تے ہیں ۔
کیل مہا سے نہ صرف دیکھنے میں بڑے لگتے اور مریض کو نفیسا تی الجھن میں مبتلا رکھتے ہیں بلکہ مسلسل تکلیف کا سامنا رہتا ہے ۔ اس تکلیف کا با عث کیل مہاسو ں کی سوزش ہو تی ہے ۔ جو کیل مہا سو ں کی اوپر کی سطح پھٹنے اور رسنے سے ہو تی ہے۔ پھر کیل مہاسے زخم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔
کیل مہا سے اسی فی صد کیسو ں میں خود ہی ختم ہو جا تے ہیں بشر طیکہ مریض ان کو چھیڑنے سے اجتنا ب کرے اور ان کو نفسیا تی مسئلہ نہ بنالے ۔ لڑکو ں میں یہ عموماً چو دہ سے سترہ سال کی عمر اور لڑکیو ں میں سنِ بلو غت میں پوری شدت اختیا ر کرتے ہیں ۔ لڑکو ں میں اس مر ض کا حملہ عمو ماً زیا دہ شدید ہو تا ہے ۔ کبھی تو ان کا زور بہت زیا دہ ہو تا ہے اور کبھی کم لیکن بیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے کیل مہا سے خو د بخود ختم ہو جا تے ہیں ، اگر زیا دہ دیر تک رہیں تو بد نما دا غ دھبے چھوڑ جا تے ہیں۔ ان سے بچنے کے لیے ان کا علا ج شروع میں ہی ہو جا نا چاہیے ، لیکن علا ج کے لیے کسی قابل اورمستند ڈاکٹر کا انتخا ب کریں۔چند مریضو ںمیں کیل مہا سے شدت اختیا ر کر لیتے ہیں ۔ ا سکی پہلی اور سب سے بڑی وجہ تو ہے نفسیا تی یا جذبا تی دباﺅ۔ پھر مریض یا مریضہ کے دوست اور سہلیا ں اس کو ان بھدے پن کا احساس دلا تے رہتے ہیں اور اسے مجبو ر کر دیتے ہیں کہ وہ ان کے بارے میں سوچتا ہی رہے ۔ بعض نوجوان ان کو اپنی شخصیت میں عیب سمجھنے لگتے ہیں اور تنگ آکر مختلف ٹوٹکے آزما تے رہتے ہیں ۔آخرکا ر یہ خرا ب ہو جاتے ہیں ۔ انہیں دباتے اور ان میں سے مواد نکالتے رہتے ہیں ۔ اس سے ان کے داغ دھبے مستقل صورت اختیا ر کر لیتے ہیں ۔ بعض لو گو ں کی طبیعت میں ویسے بھی جذباتیت زیادہ ہو تی ہے اور وہ امتحا نا ت وغیر ہ کے نزدیک زیا دہ گھبرا جاتے ہیں اور اس صورت میں بھی مہا سو ں اور کیلو ں پر برا اثر پڑتا ہے ۔ اسی طر ح حیض کے دوران لڑکیوں میں یہ کیل مہاسے شدت اختیار کر لیتے ہیں کیو نکہ ان تمام حالتو ں میں ہارمونز زیا دہ پیدا ہو تے ہیں ۔ 

اکثر یہ خیال کیا جا تا تھا کہ چاکلیٹ ، کریم ، مکھن وغیرہ کھا نے سے ان دانو ں میں اضا فہ ہو جا تاہے ۔ یہ درست نہیں ۔ چند مخصو ص کیسو ں کے سوا مندرجہ بالا خوراکیں زیا دہ نقصان دہ نہیں ہو تیں۔ یہ با ت تو تسلیم شدہ ہے کہ متوازن غذا صحت کے لیے بہترین ہے اس لیے چاکلیٹ ، با لائی مکھن ، کریم وغیرہ اس مرض میں مضر نہیں لیکن اعتدال ضروری ہے۔ چند کیسوںمیں چکنا ئی والی خوراک مضر بھی ہو تی ہے ۔ اس لیے کسی حد تک پرہیز کرنا بہتر ہی ہے ۔ غذا سا دہ کھائیں۔سبزیا ں اور پھل زیادہ کھائیں ۔

 جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ، چہرے کی چکنا ئی والے غدود اس مرض میں زیاد ہ چکنائی پیدا کر نے لگتے ہیں ۔ اس لیے چکنی جلد کو دن میں دو تین با ر کسی اچھے صابن سے دھو ئیں اور پھر صاف تولیے سے تھپتھپا کر خشک کر لیں ۔ رگڑیں ہر گز نہیں زیا دہ زور سے رگڑنے سے یہ کیل مہا سے جلد کے اندر دھنس جا تے ہیں او ر ان کا علاج مزید مشکل ہو جا تا ہے ۔ اس کے علاوہ چہرے کے نا زک روﺅں کا ٹوٹ جانا، زخم کا با عث بن جاتاہے جو کہ داغ دھبے چھوڑ سکتا ہے ۔ کیل مہا سو ں کی شدت سے تنگ آیا ہوا مریض کوئی نہ کوئی کریم کلینرز (CLEANERS) یا مو اسچرائیزر (MOISTERISERS ) وغیرہ استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ یا در کھیں ، میک اپ کی ہر چیز میں اور اوپر بیان کردہ اشیاءمیں بنیا دی جزو کوئی نہ کوئی روغن ہی ہو تا ہے۔ یہ روغن جسمانی چکنائی سے مل کر کیل مہا سو ں کی شدت میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں ۔ اس لیے کا سمیٹکس سے پرہیز لا زمی ہے ۔ چند کا سمیٹکس کو ان دانو ں کو چھپانے کے لیے استعمال کرلیں تو حرج نہیں۔ پھر بھی ان مخصوص کاسمیٹکس کا انتخا ب ڈاکٹر کے مشورے سے ہی کریں ۔ آج کے دور میں ہم لو گ معیا ری چیز اسے سمجھتے ہیں جس کے اشتہا ر ہر روز اخبار و ں ، رسالو ں اور الیکٹرک میڈیا پر نظر آئیں ۔الیکٹرک میڈیا ہر گھرمیں موجود ہے ۔ بڑے دلکش اندا زسے کیل مہا سو ں کو ختم کر نے والی کریمو ں کو پیش کیا جا تا ہے۔ لڑکے اور لڑکیا ں ان سے متا ثر ہو تے ہیں اور ان کا استعمال شروع کر دیتے ہیں وہ نہیں جا نتے کہ ان میں ایسے اجزا مو جو د ہو تے ہیں جو فائدے کی بجائے نقصان پہنچاتے ہیں ۔ اس قسم کی اشتہاری کریمو ں اور دیگر ادویا ت وغیر ہ سے بچیں ۔ 
 

بعض خوا تین مو چنے سے اپنے چہرے کے روﺅں کو نو چتی رہتی ہیں۔ یہ بھی اس مر ض کے بڑھنے کا ایک با عث ہے۔ ایک اور ضروری احتیا ط کا ذکر بھی لا زمی ہے ۔ کندھو ں پر بڑے بڑے تھیلے اور وزنی ہینڈ بیگ اٹھانے سے بھی اجتنا ب کریں کیو نکہ وزن پڑنے سے خلیو ں کی ٹوٹ پھوٹ ہو تی ہے۔ اس سے بھی مر ض کی شدت میں اضا فہ ہو تا ہے ۔ کیل مہاسوں کو چھونا بھی نہیں چاہیے ۔ ان کو زیا دہ دبانے یا چھونے سے زخم بن جا نے اور گڑھے وغیرہ پڑجانے کا امکان ہو تا ہے اور پھر ساری زندگی یہ داغ دھبے پریشان کر تے رہتے ہیں ۔کبھی بھی سوئی یا کسی نوکدار چیز سے ان کو صاف کرنے کی کوشش مت کریں ۔ سورج کی شعا عیں ان مریضو ں کے لیے مفید ہیں ۔ صبح کے وقت تا زہ دھوپ میں چہل قدمی اور سیر بہت فائدہ مند ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ جلدی سونے کی عادت ، آرام اور ذہنی سکون بھی بہت ضروری ہے ۔ یاد رکھیں ، ہر چیز میں اعتدال ضروری ہے ۔ کیونکہ زیادہ دھوپ مضر بھی ہو سکتی ہے ۔ سور ج کی زر د کرنیں زیادہ مفید ہوتی ہیں ۔ سور ج کی روشنی میں (ULTRAVIOLET RAYS) مو جو د ہو تی ہیں ۔ ان کا استعمال بھی اس مر ض میں خاصا کا میا ب ہے لیکن ان کو کسی تجر بہ کا ر ما ہر ڈاکٹر کے زیر نگرانی استعمال کرنا چاہیے یہ شعا عیں چونکہ آنکھو ں کو نقصان دے سکتی ہیں اس لیے احتیا ط ضروری ہے ۔
جو جی چاہے کھائیں لیکن اعتدال کے ساتھ زیا دہ۔ مر چ ، مصالحے ، چٹ پٹی اشیا ءاور چکنائی وغیرہ سے پرہیز کریں ۔ کاسمیٹکس کا استعمال کم سے کم کریں کیونکہ اس کی اکثریت مضرِ صحت ہو تی ہے۔ چہر ے کودن میں دو تین مر تبہ دھوئیں لیکن رگڑیں نہیں صرف صاف شفاف تولیہ کی مددسے تھپتھپا کر صاف کر دیں ۔ ان کیلو ں کو ہر گز نہ چھیڑیں اور نہ ہا تھ لگا ئیں اور نہ ہی دبا کر ان کا مواد نکالنے کی کو شش کریں۔ علاج مستقل مزاجی سے آہستہ آہستہ ہو تاہے اور اس میں کچھ وقت لگتا ہے ۔ مایوس ہو کر علا ج ترک نہ کردیں ۔ صبر و تحمل سے علا ج جاری رکھیں۔

Saturday, 3 August 2013

آخر میاں بیوی کیوں نہیں سوچتے…؟؟؟


بے تکے سوالات مسائل کی جڑ:بعض گھروں میں بیوی اور شوہر کے درمیان جو کشیدگی رہتی ہے اس کے بنیادی اسباب میں سے ایک اہم سبب بیوی کے ذاتی معمولات یا خانگی امور سے متعلق ایسے مراحل جن کو بیوی ہی خوش اسلوبی سے نباہتی ہے ان میں شوہر کی بے موقع مداخلت یا بات بات پر کیوں…؟ کیا…؟ کیسے…؟ کہاں…؟ کب…؟ والے جملوں کی بھرمار کا ہونا جو بیوی کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں۔ پھر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی منہ پھٹ‘ بدزبان اور زبان دراز ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ ذہن کا وہ چڑچڑاپن ہے جو شوہر کی طرف سے بے تکے سوالات کی بھرمار سے پیدا ہوا…
آخر شوہر صاحبان یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ تو دفتر جاکر بھی پنکھے کے نیچے رہتے ہیں اور یہ بے چاری عورت گھر میں ہوتے ہوئے بھی چولہے کی تپش میں رہتی ہے‘ گھر کی صفائی‘ کھانے کی تیاری‘ بچوں کو صاف ستھرا رکھنا‘ چھوٹا بچہ کہیں چوٹ نہ لگابیٹھے اس کا دھیان رکھنا اگر خالہ‘ پھوپھی آتی ہے تو اس سے بات چیت کرنا‘ دروازے پر آنے والوں کو جواب‘ اسکول یا مدرسہ سے آئے ہوئے بچوں کے ناز نخرے اٹھانا‘ فوری طور پر انہیں کھانے پینے کی کوئی چیز دینا‘ خود شوہر صاحب ہی کے کسی تازہ فون پر ملے ہوئے آرڈر پر عمل کرنا مثلاً یہ کہ میں شام چار بجے تک گھر آؤں گا اور فلاں کپڑے استری کرکے رکھ دینا‘ گھر آتے ہی تیار ہوکر فوراً کہیں جانا ہے۔
مذکورہ بالا اس جیسی بیسیوں مصروفیات اور الجھنوں میں گھری ہوئی بیوی اور ہر ہر بچے اور شوہر کا الگ الگ کام کرنے والی پر کیوں…؟ کیا…؟ کیسے…؟ کب…؟ کس لیے…؟ کی بوچھاڑ ہوگی تو وہ لازماً اکتائے گی…۔ اگر ساس نند گھر میں رہتی ہیں تو کبھی ان کی طرف سے بھی آپ کی بیوی کو کسی نا مناسب بات کو سننا پڑتا ہے۔ پھر دل کے بوجھ سمیت سارے کام پورے کرنا… اور اس کے علاوہ نند صاحبہ کی تحقیقات کہ مثلاً آج بھائی جان کے آنے سے پہلے بھابی صاحبہ کہاں جانے کیلئے تیار ہوئی بیٹھی ہیں؟
یہ کام کیوں نہیں کیا…؟ یہ کیسے ہوا…؟ کھانا کب ملے گا…؟ بچے کو کیا ہوا…؟ وغیرہ سوالات کی بوچھاڑ اس پر نہ فرمائیں کیونکہ اتنی چیزوں کو برداشت کرتی رہے گی اور منتظر ہوگی کہ جو اس کا اصل ہمدرد اور غم خوار ہے وہ آکر کچھ میٹھے بول بولے جس سے یہ تمام غم زائل ہوں… وہی شوہر آتے ہی کیوں؟ 
کیا؟ کب؟ کیسے؟ کہاں…؟ کون؟ کی بمباری کردے تو اس عورت پر کیا گزرے گی…‘‘
اگر آپ چاہتے ہیں کہ:اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اہلیہ نفسیاتی بیمار نہ ہو اور نفسیاتی بیماری ان مہلک طبعی بیماریوں کا سبب نہ بنے اور آپ کی بیوی بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے کے باوجود صحت مند اور تندرست رہے آپ کے بچے خوبصورت‘ ہونہار‘ اعلیٰ صلاحیتوں اور قابلیتوں کے مالک ہوں تو اپنی طرف سے پوری کوشش کیجئے کہ آپ کی ذات سے آپ کی بیوی کو کوئی غم نہ پہنچے اور آپ پر اس کو اتنا اعتماد ہو کہ اپنی ہر الجھن کو آپ سے بلاتکلف کہہ سکے اندر ہی اندر نہ گھٹے۔
اپنی بیوی بچوں کی تمام جائز خواہشات جن جن کاموں کی اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ نے اجازت دی ہے کو پورا کرکے ان کے اندر امید بشاشت‘ بلند ہمتی حوصلہ‘ محبت کے جذبات پیدا کریں اپنی استطاعت کے موافق کبھی بھی اپنی بیوی کے اعتماد کو مت ٹھکرائیں‘ اس کی باتوں کو دھیان سے سنیں اور اس کو خوش رکھنے کی حتیٰ الامکان کوشش کریں۔
تو انشاء اللہ وہ آپ پر بہت اعتماد کرنے لگے گی اور کئی جسمانی‘ نفسیاتی بیماریوں سے محفوظ رہے گی۔اس کی تندرستی میں آپ کی تندرستی پنہاں ہے اس کی خوشیوں میں آپ کی خوشی مضمر ہے۔
اچھی بیوی کی ذمہ داریاں:آنے والی بہو صاحبہ کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ میرے شوہر کے گھر والے بھی میرے ہی گھروالوں کی طرح ہیں۔ ساس، سسر کو والدین جیسا اور نندوں، دیوروں کو اپنے بہن ،بھائیوں کے جیسا سمجھنا چاہیے ان کا دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
ایک اچھی بیوی اور مہذب خاتون کی نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے نئے گھرکو اپنا اصل گھر سمجھے اور اپنے میکے سے زیادہ اپنےشوہر کے گھر اپنا دل لگائے۔ اگر کوئی چھوٹی موٹی بات بھی ہوجائے تو درگزر سے کام لیں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اپنے ماں باپ کے گھر بھی بہن بھائیوں کے ساتھ شکررنجی اور ناراضگی پیدا ہوجاتی ہے لیکن اس کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا جاتا یہی رویہ اگر شوہر کے گھر میں اور اپنے دیور‘ نند‘ ساس سسر کے ساتھ بھی رکھیں گے اور انا کا مسئلہ نہیں بنائیں گے تو خود بھی سکون میں رہیں گے اور آپ کا شوہر بھی آپ کی وجہ سے بہت سی اذیتوں سے محفوظ رہے گا۔

  بڑوں کو عزت سے بلائیں اور چھوٹوں سے پیار کریں۔ اگر گھر کا کوئی بزرگ روزے کی وجہ سے چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرے اور آپ سے غصے میں بات کریں تو ان سے پیارو محبت اور شائستگی سے بات کریں تو یہ عمل کرکے آپ گھر کے تمام افراد کے دل میں اپنی قدر پیدا کرسکتی ہیں۔ ایک اچھی بیوی کو یہ احساس ہونا چاہیے اس کا شوہر دن بھر کی سخت محنت کرکے پیسے کما کر لاتا ہے اس پیسے پر صرف بیگم صاحبہ کا ہی حق نہیں ہوتا بلکہ ان پیسوں پراُس کے والدین کا بھی حق ہوتا ہے اور دیگر حقوق بھی پورے کرنے ہوتے ہیں۔ ان حقوق کو پورا کرنے میں سمجھدار بیوی کو اپنے شوہر کی پوری پوری مدد کرنی چاہیے۔
ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کیجئے: جب ہم شکوے، شکایت کررہے ہوتے ہیں در حقیقت ہم اللہ تعالیٰ پر الزام تراشی کررہے ہوتے ہیں۔ جب منعم حقیقی پر ہم اتنی بڑی جسارت کریں گے توسکون وراحت ہماری زندگیوں سے ختم ہوجائے گا۔ گھروں کو پرسکون اور مثالی بنانے کا بہترین حل صرف اس بات میں پوشیدہ ہے کہ ہم ہر حال میں ہروقت اللہ تعالیٰ کی ذات کا سراپا شکر بنے رہیں۔ اس کی لذت اور شرینی ہم بخوبی محسوس کریں گے۔

Tuesday, 21 May 2013

میاں بیوی بحث میں الجھے ہوئے تھے.

میاں بیوی بحث میں الجھے ہوئے تھے.
بیوی نے پرجوش انداز میں کہا:"عورتیں عقل کے اعتبار سے ہر لحاظ سے مردوں سے برتر ہیں"
شوہر نے کہا:"کوئی ثبوت بھی تو پیش کیجیے"
بیوی نے جواب دیا:"دنیا بھر کے اعداد و شمار سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ساری دنیا میں پاگل مردوں کی تعداد عورتوں سے تین گنا زیادہ ہے
شوہر نے کہا:مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ ان کو پاگل خانے پہنچانے والا کون ہے؟ یعنی عورت ذات"
"اس سے بھی تو یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت مرد سے برتر ہے" بیوی نے گویا ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا.

Monday, 20 May 2013

ایک لڑکا اپنے لیے ایک لڑکی کا رشتہ مانگنے گیا


ایک لڑکا اپنے لیے ایک لڑکی کا رشتہ مانگنے گیا۔ لڑکی کا باپ اُسے ملا خوش آمدید کہا اُس کی طرف دیکھا اور کہا :
"اس سے پہلے کہ تم کچھ کہو میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں مجھے صرف ایک سوال کا جواب دے دو اگر تمہارا جواب صحیح ہوا تو ہاں سمجھو وگرنہ سمجھ لو کہ مقدر میں لکھا غالب آچکا ہے۔"

لڑکا اس بات سے خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے، "انکل آپ سوال بتائیں"

... باپ نے لڑکے کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئےسوال کیا :
"فجر کی اذان کب ہوتی ہے۔؟"

نوجوان حیران پریشان ہو کر ساڑھے تین بجے، تین پچپن پر یا پونے چھے بجے یہ جواب تھا۔

لڑکی کا باپ نوجوان کی طرف دیکھ کر کہتا ہے میری بیٹی بہت مہنگی ہے میرا خیال ہے کہ تم اسکا حق مہر ادا نہیں کرسکتے کیونکہ اسکا حق مہر اسلام ہے۔

اے اللہ مسلمان لڑکیوں کو اچھے دیندار خاوند دے اور مسلمان لڑکوں کو نیک بیویاں عطا فرما۔ آمین
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...