Friday, 24 May 2013

ھم نے سوچ رکھا ہے





ھم نے سوچ رکھا ہے
چاہے دل کی ہر خواہش 
زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے بہ جائے 
چاہے اب مکینوں پر گھر کی ساری دیواریں 
چھت سمیت گر جایں 
اور بے مقدر ھم 
اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جایں 
تم سے کچھ نہیں کہنا 

کیسی نیند تھی اپنی کیسے خواب تھے اپنے 
اور اب گلابوں پر 
نیند والی آنکھوں پر 
نرم خو سے خوابوں پر 

کیوں عذاب ٹوٹے ہیں 
تم سے کچھ نہیں کہنا 

گھر گیے ہیں راتوں میں 
بے لباس باتوں میں 
اس طرح کی راتوں میں 
کب چراغ جلتے ھیں کب عذاب ٹلتے ہیں 
اب تو ان عذابوں سے بچ کےبھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں! 
جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں! 
ھم نے سوچ رکھا ہےتم سے کچھ نہیں کہنا

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...